(شیخ محمد بلال)
تحریک طالبان پاکستان میں جاری اندرونی خانہ جنگی کو بے
نقاب کرنے سے پہلے یہ بات اہم ہے کہ دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کے وجود میں آنے
کے عمل پر ایک نظر ڈالی جائے کہ یہ تنظیمیں کیسے شیطانی کام کرتی ہیں اور ان میں کس
کردار کے لوگ ہوتےہیں ۔ روایتی طور پر دہشت گرد تنظیمیں نظریاتی بنیاد پر اُبھر کر
سامنے آتی ہیں۔ان کے وجو دمیں آنے کی ایک وجہ پانچ سو سال پُرانہ نو آبادیاتی نظام
ہے جس سے روایتی معاشروں ،ثقافت اور مذاہب کی تباہی ہوئی جس کے نتیجے میں انھوں نے
ظلم وجبر کے اس نظام سے آزادی لینے کا احاطہ کرلیا۔ موجودہ دہشت گرد نہ ہی
نظریاتی ہیں اور نہ ہی ظلم کے خلاف ہیں بلکہ اب یہ جرائم ،بغاوت اور تخریب کاری کے
گٹھ جوڑ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
موجود ہ دور میں ان دہشت گرد تنظیموں کے زندہ رہنے کا
انحصار چار اہم پہلوؤں پر ہے۔ سب سے پہلے مالی امداد ہے جو یہ غیر قانونی
سرگرمیوں مثلاً منشیات کی اسمگللنگ ،بھتہ خوری اور جعلی خیراتی اداروں سے حاصل
کرتی ہیں یا پھر باقاعدہ ریاستی سرپرستی کی مالی امداد کی شکل میں حاصل کرتی ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اب دہشت گرد تنظیموں کو بعض ریاستی عناصر کی اخلاقی حمایت
حا صل ہوتی ہے۔تیسرا اہم پہلو بین الاقوامی سطح پر ظاہراً یا پوشیدہ ان غیر ریاستی
عناصر کی سیاسی حمایت کا حاصل ہونا ہے۔چوتھا ان دہشت گردوں کا متاثرہ علاقے کے
مقامی لوگوں میں گھل مل کر پناہ حاصل کرنا اور اس کے بعد اپنے نام نہاد نظریات
کےپرچار سے وہاں کے لوگوں کو گمراہ کر کے مزید بھرتیاں اور اثرورسوخ بڑھانا ہے۔ ان
چار اہم پہلوؤں کی وجہ سے تحریک طالبان وجود
میں آئی جس نے دوسری دہشت گرد تنظیموں سے گرینڈ الائنس بنایا تاکہ پاکستان کو نظریاتی طور پر چیلنج کیا
جاسکے ملک میں تصادم اور خانہ جنگی ہواور پاکستان میں اندرونی علاقوں کو متنازعہ بنایا
جاسکے۔مگر 2009 میں بیت اللہ محسود کی
ہلاکت کے بعد اس گرینڈ الائنس میں اندرونی
لڑائی شروع ہو گئی جس سے ان کے ناپاک مقاصد کےحصول میں رکاوٹ پیدا ہوئی ۔بعدازاں حکیم
اللہ محسود کی ہلاکت اور اس کے بعد مُلّا ریڈیو کو سرپرستی ملنا تحریک طالبان کی
اندرونی لڑائی، خونریزی میں مزید اضافے کا باعث بنی۔
پاکستان دشمن ممالک بلخصوص بھارت ان دہشت گرد تنظیموں کی
اندرونی لڑائی سے سخت پریشان ہے جو انھیں پاکستان میں خانہ جنگی کےلیے استعمال
کرتا رہا ہےاور مزید انھیں مذہبی ،نظریاتی اور نفسیاتی جنگ کا محاذ کھولنے کے
استعمال کرنا چاہتا ہے۔بھارت نے اس مقصد کےلیے بہت سے ہتھکنڈے استعمال کیے مگر
خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔ ان کا ایک ہتھکنڈہ ریسٹورنٹ مینیو کی طرح دہشت گرد ا نہ اہداف اور ان کے انعامات کےتذکرے پر مشتمل تھا
تاکہ اس گرینڈ الائنس کو یکجا کر کے
پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکے ۔ ان انعامات کےحصول کےلیے ٹی ٹی پی اور دوسری
دہشت گرد تنظیموں میں اندرونی خانہ جنگی مزید تیز ہوئی۔ بھارت کے خفیہ ادارے اس
منصوبہ بندی میں ناکامی کے بعد اس گرینڈ الائنس کو دوبارہ سرگرم کرنےکےلیے کوشاں
ہیں تاکہ پاکستان میں ایک مشترکہ محاذ کھولا جا سکے۔
2017 کے شروع میں
یہ خبریں عام گردش کرنے لگیں کہ ٹی ٹی پی اور خان سجنا گروپ میں موجود اندرونی لڑائی ختم کروانے کےلیے بھارتی
اور افغانی خفیہ ادارے سرگرم ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان خفیہ اداروں نے خان سید سجنا کو ٹی ٹی پی کا ڈپٹی امیر مقرر کروایا اور فضل اللہ
کو گرینڈ الائنس دوبارہ یکجا کرنے کےلیے
ذمہ دار مقرر کیا تھا تا کہ پاکستان کی عوام کے خلاف دہشت گردی میں اضافہ اور
سی پیک کےخلاف تخریب کاری بڑھائی جاسکے۔ان دہشت گردوں کی ناکامی کی ایک وجہ غیر
قانونی ذرائع سے حاصل کردہ وسائل پر اپنا اپنا قبضہ جمانا ہے جس کی وجہ سے پاکستان
کےخلاف ان کی یکجہتی متاثّر ہوئی۔
ٹی ٹی پی کے دو بڑے دھڑوں کی آپس میں لڑائی کی وجہ سے
مقامی محسود ،وزیر اور داوٗٗٗٗٔد قبائل بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں جسکی وجہ
سے مقامی امن بھی متاثر ہورہا ہے۔ذرائع کے مطابق فضل اللہ خان سید سجنا کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے اور
حا ل ہی میں خان سجنا نے حضرت اللہ نامی ایک شخص کو وحشیانہ طریقے سے ٹھکانے لگایا جس
کو فضل اللہ نے خان سجنا کےقتل کا ہدف
سونپا تھا۔ کمانڈر سیف اللہ محسود نے پوری ٹی ٹی پی کے لیے ایک وڈیو پیغام جاری
کیا جس میں وہ خان سید سجنا کو ٹی ٹی پی کی اندرونی لڑائی کا ذمہ دار ٹھہرا کر
غدار قرار دے رہا ہے۔ اس وڈیو میں سیف اللہ نےخان سجنا کی ٹی ٹی پی کی نائب قیادت
کو مسترد کردیاہے۔ اپنے ساتھیوں حضرت اللہ ، پیر
عبداللہ و دیگر کے بدلے کےلیے خان سجنا کےقتل کا عہد کیاہے ۔
موجودہ واقعات
دہشتگردوں میں افراتفری کا باعث بن کر فضل اللہ کی قیادت اور ٹی ٹی پی کےلیے نقصان دہ ثابت ہورہےہیں۔پاکستانی
فوج کی ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حالیہ بمباری سے فضل اللہ بھاگ کر روپوش ہوگیا جس کی
وجہ سے ٹی ٹی پی میں قیادت کا بحران بڑھ
رہا ہے۔خفیہ ذرائع کے مطابق "را" اور "این ڈی ایس" نے بھی فضل اللہ کو فی الوقت زیر زمین رہنےکی ہدایات دی
ہیں تاکہ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد اس سے دوبارہ گرینڈ الائنس کا کام
لینےکےلیے کوئی متبادل شیطانی راستہ نکالا جا سکے۔آنے والے وقت میں اس بات کے
واضح امکانات موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی ودیگر
دہشت گرد تنظیمیں اپنےلیے وسائل پر قبضہ
جمانے کےلیے مزید کوششیں کریں جس کی وجہ سے یہ آپس میں ایک د وسرے پر وحشیا نہ حملے کریں اور وفاداریاں تبدیل کر کے ایک دوسرے کی قیادت کو قتل کرنے کی کوششیں کریں۔
دہشت گردی
کے جال میں پھنسے ہوئے عسکریت پسند بھی اپنے شیطانی رہنماوں کے جھوٹے دعووں سے
آگاہ ہو چکے ہیں اور اب یہ اخلاقی طور پر اپنے رہنماوں کے احکامات کو کھلم کھلا ترک
کررہےہیں۔پیروکار عسکریت پسندوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان کے رہنماوں کےپیچھے اسلام
دشمن طاقتیں ہیں جو ان کو شیطانی کاموں کےلیے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں یہ احساس تب
پیدا ہوا جب ان کے رہنماوں نے ان کو بے یار و مددگار پاکستانی مسلح افواج کے سامنے
چھوڑ دیااور خود اسلام دشمن طاقتوں کے احکامات پر زیر زمین چلے گئے۔
No comments:
Post a Comment